ایکنا نیوز- جب خدا نے انسان کے اندر روح پھونک کر اسے خلق کیا تو اس کا نام اشرف المخلوقات رکھا کیونکہ وہ کمالات تک پہنچنے کا راستہ طے کرسکتا تھا جو دیگر مخلوقات میں ممکن نہ تھا۔
تب خدا نے تمام فرشتوں سے کہا کہ وہ اس مخلوق کو سجدہ کریں، شیطان جو خدا کے مقرب ترین بندوں میں سے تھا اور اس کو سمجھتا بھی تھا اس نے ایسا نہ کیا اور خدا نے اسکو اپنی بارگاہ سے باہرنکالا۔
شیطان نے یہاں سے انسان سے دشمنی شروع کیا اور قسم کھایا کہ وہ اس کو کمال کے راستے سے منحرف کرے گا «قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ: [شيطان نے خدا سے] سے عرض کیا کہ تیری عزت کی قسم سب کو گمراہ کرونگا»(ص،۸۲). یہ داستان مکمل طور پر آیات ۳۴تا ۳۹ سوره بقره میں موجود ہے۔
لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان وسوسه اور گناہ کی ترغیب دیکر انسان کو قرب خدا سے منحرف کرسکتا ہے۔
رب العزت نے بھی شیطان کی دشمنی بارے متعدد بار انتباہ کیا ہے:
«وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ: ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں گمراہ کرے وہ کھلا دشمن ہے» (زخرف، ۶۲).
محسن قرائتی تفسیر نور میں فرماتے ہیں:
اب اس کو سمجھنے کے لیے کہ شیطان انسان کا ہمارا دشمن ہے کیا ضرورت باقی رہتا ہے؟
اب اگر انسان کمال کی طرف جانے کے لیے ہدایت طلب کرتا ہے تو ضرورت ہے کہ وہ اس راستے کی رکاوٹوں کو سمجھے، لہذا اس راستے میں حایع رکاوٹوں کو سمجھنا سب کی ضرورت ہے۔/